کون کہتاہے کہ عزیزوں کی خدمت کرنا عبادت نہیں؟ یہ جو ہماری مائیں ہیں، ہماری بڑی بہنیں، ہماری چھوٹی بہنیں، کیا یہ عبادت نہیں کر رہیں؟سرکاری ہسپتالوں کے ٹھنڈے فرشوں پر ڈرپ پکڑ کر بیٹھی ہوئی عورتیں۔دوا، اور ڈاکٹرکے پیچھے بھاگ دوڑتیں کرتیں مائیں۔اپنا آپ بھلا کر اپنے عزیزوں پر اپنی جان نثار کرتی خواتین۔رات دن کی تیماری، عبادت گزاری اور گھر کی دیکھ بھال بھی۔میں نے وہ ماں دیکھی ہے جس نے اکیس سال اپنی معذرو بیٹی کی خدمت کی، اور اکیس سال وہ گھر سے باہر نہیں نکلی، کسی تقریب میں شرکت نہیں کی۔ان کے دن رات بس معذرو بیٹی کی خدمت میں ہی گزرے۔ میں نے وہ لڑکیاں دیکھیں ہیں جو باپ کی،بھائی کی، ماں کی بیمار پرسی کرتی ہیں، شادی نہیں کرواتی، تعلیم چھوڑ دیتی ہیں، اپنے سارے شوق تیاگ دیتی ہیں۔ میں ایک خاتون کو جانتی ہوں، جس نے پہلے بیمار باپ کی خدمت کی، پھر ذہنی معذرو بھائی کی، پھر ماں کی…اور اس میں وہ شادی نہیں کروا سکی۔ اس نے اپنی پوری زندگی اپنے عزیزوں کو دے دی۔نہ اس نے حج کیا، نہ عمرہ۔ خاتون کی ساری عبادت عزیزوں کی خدمت رہی۔

یہ سب کہنا، پڑھنا آسان ہے، لیکن حقیقت میں ایسے اعمال اپنانا بہت بڑا جہاد ہے۔بیمار کی خدمت کرنا…دل سے کرنا…جھنجھلائے بغیر، منہ بنائے بغیر کرنا،یا دل پر پتھر رکھے بغیر اور کسی صلے کی امید کے بغیر کرنا بڑی عظمت ہے۔ بڑی عبادت ہے۔ عبادتیں جائے نماز پر ہی نہیں ہوتیں۔ یہ وہ سعی ہے جو ”مقبول“کرتی ہے۔ یہ اللہ کے لیے، اللہ کی مخلوق کے ساتھ سعی ہے۔یہ اعمال کی وہ سعی ہے جسے بڑا پسند کیا گیا ہے۔ حضرت ایوبؑ کے ساتھ ان کی ایک ہی زوجہ کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے ان کی خدمت کی تھی۔ہم اس خدمت کرنے والے انسان کو جانتے ہیں، ہزاروں سالوں بعد ہم تک بس اس ایک”بیمار پرسی“کرنے والے کا ذکر پہنچا ہے۔ کیا ذکر ایسے ہی زندہ رہتے ہیں؟کیا وقت بے وجہ زندہ رکھتا ہے؟

نہیں …یہ انسان کی عظمت ہوتی ہے جو اسے وقت کے ساتھ زندہ رکھتی ہے۔ یہ حضرت ایوبؑ کی بیوی کی خدمت تھی، جو آج بھی ہم انہیں جانتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ وہ یہ صرف وہی تھیں جنہوں نے کبھی آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا اور جو ہمیشہ آپ کی خدمت کے لیے موجود رہیں۔بیماری بے بسی ہے، لیکن تیماری داری”توفیق“…یہ توفیق خوش نصیبوں کو ملتی ہے۔جنت نے سمجھ لیا تھا کہ مراد بے بس اور بے اختیار ہے، اگر اس نے ”مراد“کو چھوڑ دیا تو وہ اپنی مراد نہیں پا سکے گی۔ وہ اپنا حج نہیں پا سکے گی۔

who says that